حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو کیسے روکا جا سکتا تھا؟؟سیلاب کی تباہ کاریوں میں مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون ہے؟؟سینئرصحافی عامر متین نے سیلاب سے متعلق کن بنیادی ایشوز کو ہائی لائٹ کیا ہے؟؟

سیلاب سے تباہی کی وجوہات پر عامر متین کی ٹویٹس۔۔
سینئر صحافی عامر متین نے حالیہ سیلاب سے ہونیوالی تباہی سے متعلق 27اگست2022ء کو اہم ٹویٹس کی ہیں۔ان ٹویٹس میں انکی جانب سے چند اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ بروقت فیصلے کرکے اوراقدامات اٹھاکر حالیہ سیلاب سے ہونیوالی تباہ کاریوں سے کس طرح بچا جا سکتا تھا۔۔۔۔اس حوالے سے عامر متین صاحب نے جو ٹویٹس کی ہیں،انکی تفصیل کچھ یوں ہے:۔

”پاکستان میں سیلاب سے ۱یک ہزار سے زائد اموات اور کروڑوں افراد کو بے گھر ہونے سے بچایا جا سکتا تھا اگر وفاق صوبوں سے لڑائی بند کرکے دریائے سندھ کا سیلابی پانی لنک کینال کے ذریعے جہلم،چناب میں صحیح وقت پرمنتقل کردیتا۔۔۔ایسا کیوں نہ ہوسکا اور اب بھی ایسا نہیں ہورہا۔۔۔اسکی وجوہات کیا ہیں؟

کیا یہ سیلاب صرف خدائی آفت تھا یا اس سے ہونے والی کافی تباہی سے بچا جا سکتا تھا؟۔۔۔یہ ممکن تھا اوراب بھی ہے۔۔۔مگر ایسااس لئے نہ ہوسکا کیونکہ وفاق اور صوبوں کی لڑائی کی وجہ سے بروقت فیصلے نہیں ہوسکے۔۔کیسے۔۔؟ذرا توجہ سے سنیں اور سر پیٹیں۔۔
دریائے سندھ کے سیلاب کا پانی جہلم،چناب اور بقیہ آبی ذخیروں میں اس لئے بروقت نہیں ڈالا گیا اوراب بھی نہیں ڈالا جارہا کیونکہ اس نظام کو ’اِرساIRSA (Indus River System Authority)‘ اور ’فلڈ کمیشن‘چلاتے ہیں۔۔۔یہ نظام وفاق اور صوبوں کے مابین آبی معاہدوں پرمبنی ہے کہ کس صوبے کو کس وقت کس جگہ سے کتنا پانی ملے گا۔۔۔یہ معاہدے پتھر پرلکیر نہیں کہ تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔۔۔خاص طور پر اس وقت جب کروڑوں انسانوں اور مال کا مسئلہ ہو۔۔وفاق اور صوبے بڑی آسانی سے گنجائش نکال سکتے تھے اور نکال سکتے ہیں کیونکہ مسئلہ ملک اور شاید خطے کی تاریخ میں سب سے بڑی آفت سے نمٹنے کا ہے۔

بڑی آسانی سے یہ فیصلہ ہوسکتا تھا کہ وقتی طور پر صوبے اپنے پانی کے حصے کی مانگ نہیں کریں گے اورسندھ کے سیلاب کے پانی کو بروقت چھوٹے دریاؤں اورآبی ذخیروں میں منتقل کیا جا سکتا تھا۔۔۔صوبہ سندھ کو اس پر کیا اعتراض ہونا تھا جب انکی جان،مال،مویشی اور فصلیں بچ رہی تھیں۔۔۔اور خاص طور پر جب وفاق اور سندھ میں ایک ہی سیاسی اتحاد ”پی ڈی ایم“ کی حکومت ہے۔پنجاب کے جنوبی حصے بھی سیلاب سے بچ جاتے۔۔مگر ایسا نہ ہوسکا۔۔کیوں؟

اب اسکو حکومتوں،سرکاری عہدیداران اور متعلقہ اداروں کی نالائقی کہہ لیں یا شومئی قسمت کہ سینکڑوں لوگ مارے گئے۔کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے۔۔مال مویشی سب کچھ کھو دیا۔۔آخر کیوں؟

معاہدے،قانون اس لئے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ہو،فلاح ہو۔جب یہ سب خطرے میں ہوتا ہے تو فطرت اور انسانی بقا کے اصولوں کی بنیاد پراس میں فوراً تبدیلی لائی جاتی ہے اور لائی جانی چاہئے۔۔۔

جب ہمارے دوستوں کے ایک گروپ نے،جوسیلاب زدگان کی مدد کیلئے بنایا گیا تھا،پانی کے اعدادوشمار دیکھے،تو یقین نہیں آیا۔کچھ صحافی دوستوں کا خیال تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ذرا بات چیت، نیک نیتی اور غوروفکر سے آفت کے اثرات کم ہو سکتے تھے،(لیکن) اس کے باوجود کسی نے کچھ نہ کیا۔۔ذرا تفتیش سے ثابت ہوا کہ ایسا ہی ہوا ہے۔۔خدائی آفت کے ساتھ ساتھ انسانی غلطی سے جان و مال کا نقصان ہوا اور ابھی بھی ہورہا ہے۔۔۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ خیال وزیراعظم شہبازشریف کو آیا کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے؟
تیس چالیس سال سے نظام چلانے والوں کو یہ بنیادی خیال کیوں نہیں آیا؟
کیا کسی وزیراعلیٰ،سرکاری بابویا متعلقہ محکموں نے اس طرف توجہ مبذول کروائی کہ یہ ممکن ہے؟
کیا اِرسا یا فلڈ کنٹرول والوں نے حکومت کو بریف کیا یا کوئی چٹھی لکھی ہو؟؟

معلوم ہوا کہ کسی نے کچھ نہیں کیا۔۔۔اِرسا اور فلڈ کنٹرول کاسب سے زیادہ قصورنکلا۔

دریائے سندھ میں سیلاب کے دوسرے ریلے پربھی نئی آفت سر پرکھڑی ہے۔ساری رات نوشہرہ کے لوگ دریائے کابل میں 449000کیوسک کے تاریخی سیلاب سے بچنے کیلئے سڑکوں پر دھکے کھاتے رہے۔۔۔اب بتایا جارہا ہے کہ نوشہرہ میں مزیدسیلاب کا خطرہ شاید ٹل گیا ہے۔اب سیلاب اگلے اسٹاپ یعنی چشمہ بیراج کی جانب گامزن ہے اور پھر تونسہ جہاں پہلے ہی قیامت آچکی ہے۔پھر گدو سکھر اور سب سے چھوٹے اور خطرناک کوٹری بیراج سے اس خونی سیلاب نے گزرنا ہے۔۔ابھی قیامت نہیں آئی۔

چشمہ کے بارے میں متعلقہ محکمے پرامید ہیں مگرسیلاب کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
اب اصلی کہانی کھلتی ہے۔۔
۔۔۔واپڈانے اِرسا(IRSA)کو لکھا کہ وہ دریائے سندھ پر پریشر ہٹانے کیلئ…